Tuesday 19 July 2016

سہولت کار ✒ راہی حجازی

0 comments
سہولت کار
 راہی حجازی
بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اہل تبلیغ کی محبت میں گرفتار ہوکر کچھ دیگر علماء حق پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیتے ہیں، ان کے علمی و دعوتی کام کو کام ہی نہیں سمجھتے بلکہ انکو فرقہ پرستی کی دعوت دینے والے گرداننے لگتے ہیں، بالخصوص جو مناظرین اسلام فرقہ ناجیہ پر ہونے والے چو طرفہ حملوں کا دفاع کرتے ہیں وہ ایسے محبانِ دعوت و تبلیغ کی نگاہ میں کوئی خاص وقعت نہیں رکھتے۔ میں نے بہت سے ایسے اہل دعوت و تبلیغ دیکھے ہیں جو حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم اور ان جیسے دیگر اہل علم کے کام کو کام نہیں جانتے، حتی کہ بعض تو انکے کاموں کو فرقہ پرستی پھیلانے کا باعث بھی گردانتے ہیں۔ ایسے حضرات سے گذارش ہے کہ وہ ہاتھ ہلکا رکھا کریں۔ حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم جیسے اہل علم دین کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم جیسے داعی و واعظ دین کے اندر کام کرنے والے ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے میدان عمل ہیں، اپنے اپنے تقاضے ہیں، سرحد کا جو فوجی ہوتا ہے اس کے اپنے کرائٹیریا اور پیرا میٹرز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر رہنے والے محبت و اتفاق کے علم برداروں کے اپنے کرائٹیریا اور پیرا میٹرز ہوتے ہیں، دونوں اپنی اپنی حدود جانتے ہیں اور اسی میں کام بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حدود میں قدم نہیں رکھتے۔ مثال کے طور سے عبد الستار ایدھی مرحوم اور کلدیپ نیئر جیسے ملک کے اندر کام کرنے والے حضرات میل ملاپ اور محبت و اتفاق کی بات کرتے ہیں، انکا بات کرنا بنتا بھی ہے، بلکہ یہ تو واگھ بارڈر پر محبت اور امن کے دیپ بھی جلا آتے ہیں۔ لیکن سرحد کی چوکسی پر مامور فوجی کا کام سرحد پر امن و آشتی کے دیپ جلانا نہیں ہوتا۔ اسکا کام دہشت گردی اور گھس پیٹی سے سرحد کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ وہ اگر سرحد پر کبھی گھس پیٹ دیکھ لے تو سیدھا گولی چلاتا ہے اور ملک کے دشمن کو پیوند خاک بناتا ہے۔ یوں دونوں فریق مل کر ملک کی گاڑی کو بحسن و خوبی منزل کی طرف رواں دواں رکھتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ دین کے اندر کام کرنے والے ہوتے ہیں اور بعض دین کی سرحدوں پر، اندر کام کرنے والے اتحاد و اتفاق کی بات کرتے ہیں اور سرحد پر کام کرنے والے سرحد کی فتنوں سے حفاظت کرتے ہیں۔ اندر کام کرنے والے محبت و آشتی کے دیپ اسی وقت تک جلا کر رکھ سکتے ہیں جب تک سرحد کی حفاظت پر مامور حضرات اپنے مفوضہ امور انجام دیتے رہتے ہیں۔ وہ اگر مفوضہ امور انجام نہ دیں تو اندر دیپ جلانے والوں کے دیپ نہیں گھر اور بستیاں جلادی جائیں۔ ایسے میں کچھ اہل تبلیغ حضرات کی طرف سے مناظرین حضرات کو ڈی گریڈ کرنا، انکو دیوار سے لگانا، انکے کام کو فرقہ پرستی پھیلانے کا باعث گرداننا دین کو اور دین کی سرحدوں کو ڈھا دینے کے مترادف ہے۔ دین کی گاڑی حسن و خوبی کے ساتھ منزل کی طرف گامزن اسی وقت تک رہ سکتی ہے جب تک دونوں اپنے اپنے میدان عمل میں کام کرتے رہیں۔ خدارا دین کی سرحدوں کی حفاظت کیجئے، نہ کرسکتے ہوں تو حفاظت کرنے والوں کے سہولت کار بنئے دشوار کار نہیں


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔